خیرپور سے ایک خیر کی خبر یہ آئی ہے کہ ایک کالج کے اساتذہ نے اپنی تنخواہ حلال کرکے کھانے کا حلف اٹھایا ہے۔ کالج کے پرنسپل نے ان سے یہ حلف لیا کہ وہ روزآنہ کالج آئیں گے اور طلبہ کو پڑھائیں گے۔ چند ماہ قبل اسی کالج کے اساتذہ نے کالج میں امتحانات کے دوران نقل نہ ہونے دینے کا حلف اٹھایا تھا جس کے بعد انٹر کے امتحانات کے دوران اس کالج میں نقل نہ ہونے دی گئی۔ یہ خبر پڑھ کر دل نہ صرف باغ باغ ہوا بلکہ خوشی سے جھوم بھی اٹھا کیونکہ سسٹم پر تنقید کرنا اور اسے برا بھلا کہہ کر ساری ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوجانا تو بڑا آسان ہوتا ہے لیکن اسی سسٹم میں رہتے ہوئے اپنی اصلاح کرنا اور پھر اس پر سختی سے کاربند رہنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔ جب قدم قدم پر مختلف قسم کی مافیاؤں نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہوں تو اپنے تئیں انتہائی ایماندار ہونے کے باجود ثابت قدم رہنا اور ہر طرح کی دھمکیوں کا سامنا کرنا ایک مقدس جہاد سے کم نہیں ہوتا۔ اگر دیکھا جائے تو کالج کے اساتذہ کو جو مشاہرہ دیا جاتا ہے وہ اتنا کم ہوتا ہے کہ اگر اسے مرغی سے تشبیہ دی جائے تو غلط نہ ہوگا اور اس کے مقابلے میں وزراء اور مشیروں کو جو کچھ ملتا ہے اگر اسے بکرے سے تشبیہ دی جائے تو بھی غلط نہ ہوگا ۔ اب اگر ایک کالج کے اساتذہ اپنے مرغی حلال کرکے کھا سکتے ہیں تو پھر ان حضرات کو بھی اپنا بکرا حلال کرکے کھانا چاہئے اور ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں۔ وفاقی اور صوبائی کابینہ کو بھی ایسا ہی حلف اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ کچھ عہدے ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں خدمات کے عوض بیل جتنی تنخواہ پیش کی جاتی ہے، اس بیل کو حلال کرکے کھانا اکیلے ان کے لئے انتہائی مشکل کام ہوگا چنانچہ ایسے لوگوں کو اپنے بیل کے حصہ داروں کو بھی سمجھانا ہوگا تاکہ حق حلال کی کھانے کی عبادت میں وہ بھی شامل ہو سکیں۔ یہ خبر ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ معاشرے میں پائی جانے والی خرابیوں پر رونے اور کڑھنے کے بجائے انفرادی سطح پر قدم اٹھا کر بھی کچھ نہ کچھ اصلاح کی جانب جایا جا سکتا ہے، جب ہم انفرادی سطح پر ایسی سوچ کو فروغ دیں گے تو بدی کے پیروکاروں کے قدم ضرور لڑکھڑائیں گے۔۔۔ بس ضرورت ہے اپنے اوپر اعتماد اور تھوڑی سی ثابت قدمی کی۔۔۔!!
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment